Mirza Ghalib Urdu Ghazal || Mirza Ghalib Urdu Poetry || Urdu Ghazal Pics || Mirza Ghalib Top 10+ Ghazal
چشم خوباں خامشی میں بھی نوا پرداز ہے
شاعر: مرزا غالب
چشم خوباں خامشی میں بھی نوا پرداز ہے
سرمہ تو کہوے کہ دود شعلۂ آواز ہے
پیکر عشاق ساز طالع نا ساز ہے
نالہ گویا گردش سیارہ کی آواز ہے
دست گاہ دیدۂ خوں بار مجنوں دیکھنا
یک بیاباں جلوۂ گل فرش پا انداز ہے
چشم خوباں مے فروش نشہ زار ناز ہے
سرمہ گویا موج دود شعلۂ آواز ہے
ہے صریر خامہ ریزش ہاۓ استقبال ناز
نامہ خود پیغام کو بال و پر پرواز ہے
سرنوشت اضطراب انجامی الفت نہ پوچھ
نال خامہ خار خار خاطر آغاز ہے
شوخی اظہار غیر از وحشت مجنوں نہیں
لیلیٰ معنی اسدؔ محمل نشین راز ہے
نغمہ ہے کانوں میں اس کے نالۂ مرغ اسیر
رشتۂ پا یاں نوا سامان بند ساز ہے
شرم ہے طرز تلاش انتخاب یک نگاہ
اضطراب چشم برپا دوختہ غماز ہے
حصہ اول |
حصہ دوم |
باغ پا کر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے
شاعر: مرزا غالب
باغ پا کر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے
سایۂ شاخ گل افعی نظر آتا ہے مجھے
جوہر تیغ بہ سر چشمۂ دیگر معلوم
ہوں میں وہ سبزہ کہ زہراب اگاتا ہے مجھے
مدعا محو تماشائے شکست دل ہے
آئنہ خانہ میں کوئی لیے جاتا ہے مجھے
نالہ سرمایۂ یک عالم و عالم کف خاک
آسماں بیضۂ قمری نظر آتا ہے مجھے
زندگی میں تو وہ محفل سے اٹھا دیتے تھے
دیکھوں اب مر گئے پر کون اٹھاتا ہے مجھے
باغ تجھ بن گل نرگس سے ڈراتا ہے مجھے
چاہوں گر سیر چمن آنکھ دکھاتا ہے مجھے
شور تمثال ہے کس رشک چمن کا یا رب
آئنہ بیضۂ بلبل نظر آتا ہے مجھے
حیرت آئنہ انجام جنوں ہوں جیوں شمع
کس قدر داغ جگر شعلہ اٹھاتا ہے مجھے
میں ہوں اور حیرت جاوید مگر ذوق خیال
بہ فسون نگۂ ناز ستاتا ہے مجھے
حیرت فکر سخن ساز سلامت ہے اسدؔ
دل پس زانوئے آئینہ بٹھاتا ہے مجھے
حصہ اول |
حصہ دوم |
نکوہش ہے سزا فریادی بے داد دلبر کی
شاعر: مرزا غالب
نکوہش ہے سزا فریادی بے داد دلبر کی
مبادا خندۂ دنداں نما ہو صبح محشر کی
رگ لیلیٰ کو خاک دشت مجنوں ریشگی بخشے
اگر بووے بجاۓ دانہ دہقاں نوک نشتر کی
پر پروانہ شاید بادبان کشتی مے تھا
ہوئی مجلس کی گرمی سے روانی دور ساغر کی
کروں بے داد ذوق پر فشانی عرض کیا قدرت
کہ طاقت اڑ گئی اڑنے سے پہلے میرے شہ پر کی
کہاں تک روؤں اس کے خیمے کے پیچھے قیامت ہے
مری قسمت میں یارب کیا نہ تھی دیوار پتھر کی
بجز دیوانگی ہوتا نہ انجام خود آرائی
اگر پیدا نہ کرتا آئنہ زنجیر جوہر کی
غرور لطف ساقی نشۂ بیباکی مستاں
نم دامان عصیاں ہے طراوت موج کوثر کی
مرا دل مانگتے ہیں عاریت اہل ہوس شاید
یہ جانا چاہتے ہیں آج دعوت میں سمندر کی
اسدؔ جز آب بخشیدن ز دریا خضر کو کیا تھا
ڈبوتا چشمۂ حیواں میں گر کشتی سکندر کی
حصہ اول |
حصہ دوم |
افسوس کہ دنداں کا کیا رزق فلک نے
شاعر: مرزا غالب
افسوس کہ دنداں کا کیا رزق فلک نے
جن لوگوں کی تھی در خور عقد گہر انگشت
کافی ہے نشانی ترا چھلے کا نہ دینا
خالی مجھے دکھلا کے بہ وقت سفر انگشت
لکھتا ہوں اسدؔ سوزش دل سے سخن گرم
تا رکھ نہ سکے کوئی مرے حرف پر انگشت
مرزا غالب |
تپش سے میری وقف کشمکش ہر تار بستر ہے
شاعر: مرزا غالب
تپش سے میری وقف کشمکش ہر تار بستر ہے
مرا سر رنج بالیں ہے مرا تن بار بستر ہے
سرشک سر بہ صحرا دادہ نور العین دامن ہے
دل بے دست و پا افتادہ بر خوردار بستر ہے
خوشا اقبال رنجوری عیادت کو تم آئے ہو
فروغ شمع بالیں طالع بیدار بستر ہے
بہ طوفاں گاہ جوش اضطراب شام تنہائی
شعاع آفتاب صبح محشر تار بستر ہے
ابھی آتی ہے بو بالش سے اس کی زلف مشکیں کی
ہماری دید کو خواب زلیخا عار بستر ہے
کہوں کیا دل کی کیا حالت ہے ہجر یار میں غالب
کہ بیتابی سے ہر یک تار بستر خار بستر ہے
مرزا غالب |
کیونکر اس بت سے رکھوں جان عزیز
شاعر: مرزا غالب
کیونکر اس بت سے رکھوں جان عزیز
کیا نہیں ہے مجھے ایمان عزیز
دل سے نکلا پہ نہ نکلا دل سے
ہے ترے تیر کا پیکان عزیز
تاب لائے ہی بنے گی غالبؔ
واقعہ سخت ہے اور جان عزیز
مرزا غالب |
بہت سہی غم گیتی شراب کم کیا ہے
شاعر: مرزا غالب
بہت سہی غم گیتی شراب کم کیا ہے
غلام ساقیٔ کوثر ہوں مجھ کو غم کیا ہے
تمہاری طرز و روش جانتے ہیں ہم کیا ہے
رقیب پر ہے اگر لطف تو ستم کیا ہے
سخن میں خامۂ غالبؔ کی آتش افشانی
یقیں ہے ہم کو بھی لیکن اب اس میں دم کیا ہے
کٹے تو شب کہیں کاٹے تو سانپ کہلاوے
کوئی بتاؤ کہ وہ زلف خم بہ خم کیا ہے
لکھا کرے کوئی احکام طالع مولود
کسے خبر ہے کہ واں جنبش قلم کیا ہے
نہ حشر و نشر کا قائل نہ کیش و ملت کا
خدا کے واسطے ایسے کی پھر قسم کیا ہے
وہ داد و دید گراں مایہ شرط ہے ہم دم
وگرنہ مہر سلیمان و جام جم کیا ہے
مرزا غالب |
کب وہ سنتا ہے کہانی میری
شاعر: مرزا غالب
کب وہ سنتا ہے کہانی میری
اور پھر وہ بھی زبانی میری
خلش غمزۂ خوں ریز نہ پوچھ
دیکھ خونابہ فشانی میری
کیا بیاں کر کے مرا روئیں گے یار
مگر آشفتہ بیانی میری
ہوں زخود رفتۂ بیدائے خیال
بھول جانا ہے نشانی میری
متقابل ہے مقابل میرا
رک گیا دیکھ روانی میری
قدر سنگ سر رہ رکھتا ہوں
سخت ارزاں ہے گرانی میری
گرد باد رہ بیتابی ہوں
صرصر شوق ہے بانی میری
دہن اس کا جو نہ معلوم ہوا
کھل گئی ہیچ مدانی میری
کر دیا ضعف نے عاجز غالبؔ
ننگ پیری ہے جوانی میری
حصہ اول |
حصہ دوم |
ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا
شاعر: مرزا غالب
ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا
تجاہل پیشگی سے مدعا کیا
کہاں تک اے سراپا ناز کیا کیا
نوازش ہائے بے جا دیکھتا ہوں
شکایت ہائے رنگیں کا گلہ کیا
نگاہ بے محابا چاہتا ہوں
تغافل ہائے تمکیں آزما کیا
فروغ شعلۂ خس یک نفس ہے
ہوس کو پاس ناموس وفا کیا
نفس موج محیط بے خودی ہے
تغافل ہائے ساقی کا گلہ کیا
دماغ عطر پیراہن نہیں ہے
غم آوارگی ہائے صبا کیا
دل ہر قطرہ ہے ساز انا البحر
ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا
محابا کیا ہے میں ضامن ادھر دیکھ
شہیدان نگہ کا خوں بہا کیا
سن اے غارت گر جنس وفا سن
شکست شیشۂ دل کی صدا کیا
کیا کس نے جگر داری کا دعویٰ
شکیب خاطر عاشق بھلا کیا
یہ قاتل وعدۂ صبر آزما کیوں
یہ کافر فتنۂ طاقت ربا کیا
بلائے جاں ہے غالبؔ اس کی ہر بات
عبارت کیا اشارت کیا ادا کیا
حصہ اول |
حصہ دوم |
واں پہنچ کر جو غش آتا پئے ہم ہے ہم کو
شاعر: مرزا غالب
واں پہنچ کر جو غش آتا پئے ہم ہے ہم کو
صد رہ آہنگ زمیں بوس قدم ہے ہم کو
دل کو میں اور مجھے دل محو وفا رکھتا ہے
کس قدر ذوق گرفتاری ہم ہے ہم کو
ضعف سے نقش پئے مور ہے طوق گردن
ترے کوچے سے کہاں طاقت رم ہے ہم کو
جان کر کیجے تغافل کہ کچھ امید بھی ہو
یہ نگاہ غلط انداز تو سم ہے ہم کو
رشک ہم طرحی و درد اثر بانگ حزیں
نالۂ مرغ سحر تیغ دو دم ہے ہم کو
سر اڑانے کے جو وعدے کو مکرر چاہا
ہنس کے بولے کہ ترے سر کی قسم ہے ہم کو
دل کے خوں کرنے کی کیا وجہ ولیکن ناچار
پاس بے رونقی دیدہ اہم ہے ہم کو
تم وہ نازک کہ خموشی کو فغاں کہتے ہو
ہم وہ عاجز کہ تغافل بھی ستم ہے ہم کو
لکھنؤ آنے کا باعث نہیں کھلتا یعنی
ہوس سیر و تماشا سو وہ کم ہے ہم کو
مقطع سلسلۂ شوق نہیں ہے یہ شہر
عزم سیر نجف و طوف حرم ہے ہم کو
لیے جاتی ہے کہیں ایک توقع غالبؔ
جادۂ رہ کشش کاف کرم ہے ہم کو
ابر روتا ہے کہ بزم طرب آمادہ کرو
برق ہنستی ہے کہ فرصت کوئی دم ہے ہم کو
طاقت رنج سفر بھی نہیں پاتے اتنی
ہجر یاراں وطن کا بھی الم ہے ہم کو
لائی ہے معتمد الدولہ بہادر کی امید
جادۂ رہ کشش کاف کرم ہے ہم کو
حصہ اول |
حصہ دوم |
عجب نشاط سے جلاد کے چلے ہیں ہم آگے
شاعر: مرزا غالب
عجب نشاط سے جلاد کے چلے ہیں ہم آگے
کہ اپنے سائے سے سر پانو سے ہے دو قدم آگے
قضا نے تھا مجھے چاہا خراب بادۂ الفت
فقط خراب لکھا بس نہ چل سکا قلم آگے
غم زمانہ نے جھاڑی نشاط عشق کی مستی
وگرنہ ہم بھی اٹھاتے تھے لذت الم آگے
خدا کے واسطے داد اس جنون شوق کی دینا
کہ اس کے در پہ پہنچتے ہیں نامہ بر سے ہم آگے
یہ عمر بھر جو پریشانیاں اٹھائی ہیں ہم نے
تمہارے آئیو اے طرہ ہاۓ خم بہ خم آگے
دل و جگر میں پرافشاں جو ایک موجۂ خوں ہے
ہم اپنے زعم میں سمجھے ہوئے تھے اس کو دم آگے
قسم جنازے پہ آنے کی میرے کھاتے ہیں غالبؔ
ہمیشہ کھاتے تھے جو میری جان کی قسم آگے
مرزا غالب |
فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
شاعر: مرزا غالب
فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
نالہ پابند نے نہیں ہے
کیوں بوتے ہیں باغباں تونبے
گر باغ گدائے مے نہیں ہے
ہر چند ہر ایک شے میں تو ہے
پر تجھ سی کوئی شے نہیں ہے
ہاں کھائیو مت فریب ہستی
ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے
شادی سے گزر کہ غم نہ ہووے
اردی جو نہ ہو تو دے نہیں ہے
کیوں رد قدح کرے ہے زاہد
مے ہے یہ مگس کی قے نہیں ہے
ہستی ہے نہ کچھ عدم ہے غالبؔ
آخر تو کیا ہے اے نہیں ہے
مرزا غالب |
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
شاعر: مرزا غالب
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
ڈرے کیوں میرا قاتل کیا رہے گا اس کی گردن پر
وہ خوں جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بدم نکلے
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرۂ پر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
مگر لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے
ہوئی اس دور میں منسوب مجھ سے بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ جو جہاں میں جام جم نکلے
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغ ستم نکلے
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
کہاں مے خانہ کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
حصہ اول |
حصہ دوم |
کوئی امید بر نہیں آتی
شاعر: مرزا غالب
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں
میری آواز گر نہیں آتی
داغ دل گر نظر نہیں آتا
بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
کعبہ کس منہ سے جاوگے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی
حصہ اول |
حصہ دوم |
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
شاعر: مرزا غالب
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہےتمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہےنہ شعلہ میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ اداکوئی بتاؤ کہ وہ شوخ تند خو کیا ہےیہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سےوگرنہ خوف بد آموزی عدو کیا ہےچپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہنہمارے جیب کو اب حاجت رفو کیا ہےجلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگاکریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہےرگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائلجب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہےوہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیزسوائے بادۂ گلفام مشک بو کیا ہےپیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دو چاریہ شیشہ و قدح و کوزہ و سبو کیا ہےرہی نہ طاقت گفتار اور اگر ہو بھیتو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہےہوا ہے شہہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتاوگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے
0 Comments