Amjad Islam Amjad Urdu Ghazal | Urdu Poetry | Urdu Ghazal

Amjad Islam Amjad Urdu Ghazal | Urdu Poetry | Urdu Ghazal


Amjad Islam Amjad
حضور یار میں حرف التجا کے رکھے تھے
چراغ سامنے جیسے ہوا کے رکھے تھے
بس ایک اشک ندامت نے صاف کر ڈالے
وہ سب حساب جو ہم نے اٹھا کے رکھے تھے
سموم وقت نے لہجے کو زخم زخم کیا
وگرنہ ہم نے قرینے صبا کے رکھے تھے
بکھر رہے تھے سو ہم نے اٹھا لیے خود ہی
گلاب جو تری خاطر سجا کے رکھے تھے
ہوا کے پہلے ہی جھونکے سے ہار مان گئے
وہی چراغ جو ہم نے بچا کے رکھے تھے
تم ہی نے پاؤں نہ رکھا وگرنہ وصل کی شب
زمیں پہ ہم نے ستارے بچھا کے رکھے تھے
مٹا سکی نہ انہیں روز و شب کی بارش بھی
دلوں پہ نقش جو رنگ حنا کے رکھے تھے
حصول منزل دنیا کچھ ایسا کام نہ تھا
مگر جو راہ میں پتھر انا کے رکھے تھے

امجد اسلام امجد۔                                        

Amajd Islam Amjad
جو دن تھا ایک مصیبت تو رات بھاری تھی
گزارنی تھی مگر زندگی، گزاری تھی
سواد شوق میں ایسے بھی کچھ مقام آئے
نہ مجھ کو اپنی خبر تھی نہ کچھ تمہاری تھی
لرزتے ہاتھوں سے دیوار لپٹی جاتی تھی
نہ پوچھ کس طرح تصویر وہ اتاری تھی
جو پیار ہم نے کیا تھا وہ کاروبار نہ تھا
نہ تم نے جیتی یہ بازی نہ میں نے ہاری تھی
طواف کرتے تھے اس کا بہار کے منظر
جو دل کی سیج پہ اتری عجب سواری تھی
تمہارا آنا بھی اچھا نہیں لگا مجھ کو
فسردگی سی عجب آج دل پہ طاری تھی
کسی بھی ظلم پہ کوئی بھی کچھ نہ کہتا تھا
نہ جانے کون سی جاں تھی جو اتنی پیاری تھی
ہجوم بڑھتا چلا جاتا تھا سر محفل
بڑے رسان سے قاتل کی مشق جاری تھی
تماشا دیکھنے والوں کو کون بتلاتا
کہ اس کے بعد انہی میں کسی کی باری تھی
وہ اس طرح تھا مرے بازوؤں کے حلقے میں
نہ دل کو چین تھا امجدؔ نہ بے قراری تھی

امجد اسلام امجد۔                            

Post a Comment

0 Comments