ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں
Poet: Saghar Siddiqui
By: Mian Faisal Latif
ہے دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں
میرے نغمات کو انداز نوا یاد نہیں
میں نے پلاکوں سے دَر یار پہ دستک دی ہے
میں وہ ساحل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں
میں نے جن كے لیے راہوں میں بیچھایا تھا لہو
ہَم سے کہاتے ہیں وہی عہد وفا یاد نہیں
کیسے بھر آئیں سَر شام کسی کی آنکھیں
کیسے تھرائی چراغوں کی ضیاع یاد نہیں
صرف دھندلاتے ستاروں کی چمک دیکھی ہے
میرے نغمات کو انداز نوا یاد نہیں
میں نے پلاکوں سے دَر یار پہ دستک دی ہے
میں وہ ساحل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں
میں نے جن كے لیے راہوں میں بیچھایا تھا لہو
ہَم سے کہاتے ہیں وہی عہد وفا یاد نہیں
کیسے بھر آئیں سَر شام کسی کی آنکھیں
کیسے تھرائی چراغوں کی ضیاع یاد نہیں
صرف دھندلاتے ستاروں کی چمک دیکھی ہے
کب ہوا کون ہوا کس سے خفا یاد نہیں
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
آؤ اک سجدہ کریں عالم مدحوشی میں
کہاتے ہیں كے " ساغر " کو خدا یاد نہیں
عظمت زندگی کو بیچ دیا
Poet: Saghar Siddiqui
By: Mian Faisal Latif
عظمت زندگی کو بیچ دیا
ہَم نے اپنی خوشی کو بیچ دیا
چشم ساقی كے اک اشارے پہ
عمر کی تشنگی کو بیچ دیا
رند جام و سبو پہ ہنستے ہیں
شیخ نے بندگی کو بیچ دیا
ہَم نے اپنی خوشی کو بیچ دیا
چشم ساقی كے اک اشارے پہ
عمر کی تشنگی کو بیچ دیا
رند جام و سبو پہ ہنستے ہیں
شیخ نے بندگی کو بیچ دیا
راہگزاروں پہ لٹ گئی رادھا
شام نے بانسری کو بیچ دیا
جگمگاتے ہیں وحشتوں کے دیار
عقل نے آدمی کو بیچ دیہ
لب رخسار کے عوظ ہم نے
ستوت کھسروی کو بیچ دیا
عشق بہروپیا ہے آئی ’ ساغر
لب رخسار کے عوظ ہم نے
ستوت کھسروی کو بیچ دیا
عشق بہروپیا ہے آئی ’ ساغر
آپ نے سادگی کو بیچ دیا
ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا نہیں ہوتا
Poet: Saghar Siddiqui
By: Mian Faisal Latif
ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں
جی میں آتا ہے الٹ دیں انکے چہرے کا نقاب
حوصلہ کرتے ہیں لیکن حوصلہ ہوتا نہیں
شمع جسکی آبرو پر جان دے دے جھوم کر
وہ پتنگا جل تو جاتا ہے ، فنا ہوتا نہیں
اب تو مدت سے رہ و رسمِ نظارہ بند ہے
اب تو انکا طور پر بھی سامنا ہوتا نہیں
ہر شناور کو نہیں ملتا طلاطم سے خراج
ہر سفینے کا محافظ ناخدا ہوتا نہیں
ہر بھکاری پا نہیں سکتا مقامِ خواجگی
ہر کس و ناکس کو تیرا غم عطا ہوتا نہیں
ہائے یہ بیگانگی اپنی نہیں مجھکو خبر
ہائے یہ عالم کہ تُو دل سے جُدا ہوتا نہیں
جو حادثے یہ جہاں میرے نام کرتا ہے
Poet: Saghar Siddiqui
By: Mian Faisal Latif
ﺟﻮ ﺣﺎﺩﺛﮯ ﯾﮧ ﺟﮩﺎﮞﻣﯿﺮﮮ ﻧﺎﻡ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ
ﺑﮍﮮ ﺧﻠﻮﺹ ﺳﮯ ﺩﻝ ﻧﺬﺭِﺟﺎﻡ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ
ﮨﻤﯿﮟ ﺳﮯ ﻗﻮﺱِ ﻗﺰﺡ ﮐﻮﻣِﻠﯽ ﮨﮯ ﺭﻧﮕﯿﻨﯽ
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺩﺭ ﭘﮧ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﻗﯿﺎﻡﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭼﺎﮎِ ﮔﺮﯾﺒﺎﮞ ﺳﮯﮐﮭﯿﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮ
ﮨﻤﯿﮟ ﺑﮩﺎﺭ ﮐﺎ ﺳﻮﺭﺝ ﺳﻼﻡﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ
ﯾﮧ ﻣﯿﮑﺪﮦ ﮨﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﯽ ﮨﺮﺍﯾﮏ ﺷﮯ ﮐﺎ ﺣﻀﻮﺭ
ﻏﻢِ ﺣﯿﺎﺕ ﺑﮩﺖ ﺍﺣﺘﺮﺍﻡﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ
ﻓﻘﯿﮩﮧِ ﺷﮩﺮ ﻧﮯ ﺗُﮩﻤﺖﻟﮕﺎﺋﯽ ﺳﺎﻏﺮ ﭘﺮ
ﯾﮧ ﺷﺨﺺ ﺩﺭﺩ ﮐﯽ ﺩﻭﻟﺖﮐﻮ ﻋﺎﻡ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ
تاروں میرا جسم بھرو میں نشے میں ہوں
Poet: Saghar Siddiqui
By: Mian Faisal Latif
تاروں سے میرا جام بھرو! میں نشے میں ہُوں
اے ساکنانِ خُلد سنو! میں نشے میں ہُوں
کچھ پُھول کھل رہے ہیں سَرِ شاخِ میکدہ
تم ہی ذرا یہ پُھول چنو! میں نشے میں ہوں
ٹھرو! ابھی تو صُبح کا تارا ہے ضُو فِشاں
دیکھو! مجھے فریب نہ دو! میں نشے میں ہوں
نشہ تو موت ہے غمِ ہستی کی دُھوپ میں
بکھرا کے زُلف ساتھ چلو! میں نشے میں ہوں
میلہ یُونہی رہے یہ سرِ رہگزارِ زیست!
اب جام سامنے ہی رکھو! میں نشے میں ہوں
پائل چھنک رہی ہے نگارِ خیال کی!
کچھ اہتمامِ رقص کرو! مَیں نشے میں ہُوں
مَیں ڈگمگا رہا ہُوں بیابانِ ہوش میں
میرے ابھی قریب رہو! میں نشے میں ہوں
ہے صرف اِک تبسّم رنگیں بہت مُجھے
ساغر بدوش لالہ رُخوں! میں نشے میں ہوں
تخیل سے گزرتے ہیں تو نغمے چونک اٹھتے ہیں
Poet: Saghar Siddiqui
By: Mian Faisal Latif
تخیّل سے گزرتے ہیں تو نغمے چونک اُٹھتے ہیں
تصّور میں بہ انداز بہاراں لڑکھڑاتے ہیں
قرارِ دین و دُنیا آپ کی بانہوں میں لرزاں ہے
سہارے دیکھ کر زُلفِ پریشاں لڑکھڑاتے ہیں
تیری آنکھوں کے افسانے بھی پیمانے ہیں مستی کے
بنامِ ہوش مدہوشی کے عُنواں لڑکھڑاتے ہیں
سُنو! اے عِشق میں توقیرِ ہستی ڈھونڈنے والو
یہ وہ منزل ہے جس منزل پہ انساں لڑکھڑاتے ہیں
تمہارا نام لیتا ہُوں فضائیں رقص کرتی ہیں
تمہاری یاد آتی ہے تو ارماں لڑکھڑاتے ہیں
کہیں سے میکدے میں اس طرح کے آدمی لاؤ
کہ جن کی جنبشِ اَبرو سے ایماں لڑکھڑاتے ہیں
یقینا حشر کی تقریب کے لمحات آپہنچے
قدمِ ساغرؔ قریب کوئے جاناں لڑکھڑاتے ہیں
0 Comments